Saturday, December 1, 2018

چکیسر جو والی سوات کے دور سلطنت سے اپنی تاریخی حیثیت رکھتا ہے- Aftab Shangla diary on Shakaser

ضلع شانگلہ کے دور آفتادہ چاریونین کونسلوں چکیسر ، اوپل ، بونیروال ، سرکول پر مشتمل تحصیل چکیسر بنیادی سہولیات سے محروم وہ علاقہ ہے جہاں پرانفراسٹرکچر ،مواصلات ، تعلیم ، صحت ، بجلی کے سہولیات غیر تسلی بخش ہیں۔اس تحصیل کو دیگرعلاقوں سے ملانے والا مین سڑک کروڑہ سے چکیسر آج کھنڈرا ت کا منظر پیش کر رہا ہے تو دوسری طرف اس علاقہ میں صحت اور تعلیم کے سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے ، چکیسر جو والی سوات کے دور سلطنت سے اپنی تاریخی حیثیت رکھتا ہے ، یہاں پر اس وقت کے سلطنت کے اہم عہدیدار رہ چکے ہیں اور تاریخی خط و کتابت کی رو سے یہاں سے بادشاہوں کے قافلے بھی گزرے ہیں تاہم آج حالت بہت ناگفتہ بہ ہیں اور یہاں کے عوام حکومتی عدم توجہ اور سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے حکومتی توجہ سے محروم ہیں ،لاکھوں آبادی والے اس تحصیل میں یہاں کے مکین انتہائی پریشانی اور مشکلات کے شکار ہیں اور آج کے اس اکیسویں صدی میں بھی بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سابق حکومت میں علاقے کو تحصیل کا سطح بھی دیا گیا جو غالباً باقاعدہ طور پر ائندہ ماہ تک کام شروع کردیگا ۔ تحصیل چکیسر چار حجروں پر مشتمل ہے ۔اس علاقے میں گزشتہ دو دہائیوں سے بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ، کروڑہ سے چکیسر سڑک جو تقریباً 28کلومیٹر ہے آج کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے ، ٹینڈر ہونے کے باوجود روڈ پر کام کا نہ ہونا حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کے کئی اہم رہنماؤں کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔مارتونگ چکیسر روڈ تعمیر کے بعد بھی خستہ حالی کا شکار ہے اور جگہ جگہ یہ روڈ بھی خراب ہوتا جارہا ہے۔
چکیسر کوشاہراہ قراقرم سے ملانے والا دندئ تا چکیسر روڈ پرکی گئی بلیک ٹاپنگ اب خراب ہوتی جارہی ہے ، محکمہ کی عدم نگرانی اور ناقص میٹریل کی استعمال کی وجہ سے جگہ جگہ روڈ پھسل گیا ہے اور سڑک کے دونوں اطراف ریٹیننگ وال نقشہ کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے اس سڑک پر سلائیڈنگ اب معمول بن چکا ہے ، اس اہم سڑک پر جو اس علاقے کے لاکھوں مکینوں کو شاہراہ قراقرم سے ملاتا ہے مرمت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سڑک بہت قلیل عرصہ بعد کھنڈرات کی شکل پیش کریگا۔ چکیسر کالج یوں تو ریاست سوات کے دور کے بعد تعمیر ہواجس میں ہزاروں طلبہ اسی کالج میں زیر تعلیم رہے اور ضلع بھر کے طلباء ان سے مستفید ہوتے رہے جو کہ 2005کے تباہ کن زلزلہ میں خرا ب ہوکر ناقابل استعمال ہوچکاہے تاہم یہ بھی حکومتی عدم توجہ کے باعث کھنڈرات کا شکل اختیار کرچکا ہے اور اس تعلیمی درسگاہ میں کسی بھی وقت کسی خطرناک حادثے کا ہونا یقینی ہے ، تیرہ سال گزر گئے نہ کالج بنایا گیا اور نہ یہاں کے طلبہ کیلئے کوئی اور بندوبست کیا گیا،چھ سو سے زیادہ طلبہ کالج کے نام پر ایک کھنڈر میں زیر تعلیم ہیں جو حکومت کیلئے باعث شرم ہے ،کالج کے دیواروں میں بڑے بڑے شگاف پڑے ہیں ،کالج کے چھتوں میں درازیں پڑ کر اس میں استعمال شدہ سریا واضح طور پر نظر آرہا ہے،کالج میں کوئی واش روم یا دیگر سہولت تک موجود نہیں ، ناقابل استعمال عمارت کو کالج کا نام دینا مناسب تک نہیں۔ چکیسر کے پورے علاقے میں پینے کے صاف پانی نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ چکیسر میں سدا بہار چشمہ جات موجود ہیں لیکن ان کے عام لوگوں کیلئے سکیموں کوئی بند وبست موجود نہیں جبکہ بآثر لوگ بہ اسانی چشمو ں سے پانی حاصل کرتے ہیں ، تا ہم غریب آدمی پانی کے بوند بوند کو ترس گئے۔2005کے زلزلے کے بعد چکیسر میں تو ایک شاندار تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال تعمیر ہوا ہے مگر ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر سمیت سرجن،فزیشن ڈاکٹرز اور مشینری ناپید ہیں تو پھر اس بلڈنگ کا کیا فائدہ ہوا ،اس دور جدید میں بھی یہاں کے لوگ صحت جیسے بنیادی سہولت سے محروم ہیں حالانکہ اس ہسپتال کے اردگرد پانچ یونین کونسلوں پر مشتمل ہزاروں آبادی موجود ہے۔ علاقے میں صفائی ستھرائی کی کمی ہے ، میونسپل ایڈمنسٹریشن صفائی ستھرائی میں ناکام نظر آرہا ہے ڈمپنگ کا کام میونسپل ایڈمنسٹریشن کے پاس ہے ، پورے علاقے میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ،جس کو جلانے یا ضائع کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے علاقے میں بیماریوں کے پھیلنے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
 علاقے میں بجلی کا مسئلہ گزشتہ کئی برسوں سے حل طلب ہے ، جہاں کہیں بجلی کی لائن موجود بھی ہے تو وہاں وولٹیج انتہائی کم ہوتی ہے ، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحصیل چکیسر کو اقلیتی رکن قومی اسمبلی ازدیارسنگھ نے اپنے فنڈ سے ہزارہ ڈویژن کے گریڈ سٹیشن سے بجلی دی تھی،اب یہاں بجلی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ آبادی بڑھ چکی ہیں، بجلی کے ٹراسمیشن لائن بوسیدہ ہوگئی ہیں معمولی بارش کیوجہ سے کئی روز تک علاقے کی بجلی بند رہتی ہے ، اب یہاں سے رکن قومی اسمبلی نے شنگ گریڈ سٹیشن کے افتتاح کے بعد اس تحصیل کو اسی گریڈ سٹیشن سے بجلی دینے کا وعدہ کیا ہے تاہم گزشتہ روز ان کے افتتاح کے بعد سوشل میڈیا پر گریڈ سٹیشن میں بجلی نہ ہونے کی خوب پوسٹیں شیئر ہوئیں ۔تحصیل چکیسر میں سکولوں کا حالت بھی غیر تسلی بخش ہے اور 2005کے زلزلے کے بعد یہاں کے سرکاری سکولوں کے بہت بڑی تعداد آج بھی تعمیر کے منتظر ہے ، جہاں سکول موجود ہے وہاں اساتذہ کی کمی اور جہاں آبادی زیادہ ہے وہاں پر سکول کا عمارت طلباء کیلئے ناکافی ہے۔اب چکیسر کے عوام کو حقیقی معنوں میں سوچنا ہوگا کہ وہ ایک ایسی حکمت عملی تیار کریں کہ آج کے دور جدید میں بھی ان کو درپیش ان مناسب کا مناسب حل تلاش کیا جائے کیونکہ چکیسر اپنی تاریخی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی آبادی والا ضلع شانگلہ کا وہ تحصیل ہے جو اس شانگلہ کی سیاسی و سماجی حلقوں میں عرصہ دراز سے بڑی کردار ادا کر تے رہے ہیں ۔

شانگلہ میں مشران علاقہ و معززین کا پولیس کے ساتھ منشیات سے پاک مہم تعاون کی بھر پوریقین دہانی کردی

نشہ اور مواد انسان کی ذہن اور اعصاب پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرکے انسان کے جذباتی پہلو پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اچھے بھلے انسان کو خداداد صلاحیتوں کے بھر پور اور مثبت استعمال میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ، نشہ اور چیزیں ذہن کو منتشر کرتے ہیں اور انسانی جسم میں کاہلی اور سستی پیدا کرتی ہے جس کا اثربراہ راست انسانی معاشرہ پر پڑ جاتا ہے ، ایک طرف تو نشے کے عادی انسان کا صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے جو معاشرے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشیت اور ترقی پر بوجھ بن جاتی ہے تو دوسری طرف معاشرے میں کئی جرائم بھی جنم لیتے ہیں کیونکہ منشیات کے عادی انسان نشے کے مواد کی حصول کیلئے طرح طرح کے طریقے استعمال کرتے ہیں، جب وسائیل کم ہوجائے اور منشیات دستیاب نہ ہو تو وہ غیر اخلاقی اور غیر ذمہ دار طریقے سے مالی وسائل کے حصول کیلئے کئی طرح کے ناجائز طریقے استعمال کرنے شروع کرجاتے ہیں جو کہ ائے روز ہمارے معاشرے میں بری طرح بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ منشیات اور نشہ اور مواد معاشرے میں ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جو دن بہ دن ہمارے نوجوان نسل کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے ، اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پورے دنیا میں منشیات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور تقریباً ساری دنیا کسی نہ کسی شکل میں منشیات نے اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اس حوالے سے اکثر ماہرین ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کی پاکستان میں نشہ اور مواد کی پھیلانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اپنایا ہے اور ان کو عام کرنے میں ان کا بڑا دخل ہے ،اس وقت یہ منشیات فروش نے ایک نئے پالیسی پر عمل پیرا ہوچکے ہیں اور انھوں نے براہ راست تعلیمی اداروں کو نشانے پر لیا ہوا ہے ، ائے دن میڈیا رپورٹس میں تعلیمی اداروں میں ائس اور چرس و دیگر منشیات ان تعلیمی درسگاہوں سے بر امد ہوجاتے ہیں تاہم اس کیلئے سول سوسائیٹی نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا ۔ ایک طرف دیکھا جائے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو کچھ مایوسیاں بھی سامنے آجاتی ہے ۔

 اسی سلسلے میں ضلعشانگلہ پولیس نے منشیات کے روک تھام کیلئے سکولوں اور کالجوں میں سیمنارز اور واک کا انعقاد شروع کردیا ہے۔ عوام نے اس مثبت اقدام کو سراہ کر ان کی بھر پور خیرمقدم کیا۔ شانگلہ پولیس نے پہلے مرحلے میں کوٹکے بازارمیں منشیات کے خلاف واک کیا جبکہ گورنمنٹ ہائیرسیکنڈری سکول میں سیمنار کا انعقادبھی کیا، جس میں علاقہ مشران، ماہرین تعلیمات،بلدیاتی نمائندوں،علماء ، طلباء نے بھر پور شرکت کی۔شانگلہ پولیس نے منشیات کے خلاف مہم میں مشران علاقہ و معززین کے پولیس کے ساتھ منشیات سے پاک شانگلہ مہم میں تعاون کی بھر پوریقین دہانی کردی ۔ سول سوسائیٹی کے نمائندگان نے ہرسطح پر پولیس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کرلیا۔ معاشرے کو اب منشیات کے ناسور سے پاک کرنا ہوگا،ہمیں بطور جہاد اس کالے دھندے کو اپنے ماحول سے ملیا میٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے،اس وقت ہمیں بڑا چیلنج منشیات کا ہے اور نوجوان نسل کو ہمیں تباہی سے بچانا ہوگا۔منشیات سے پاک شانگلہ مہم میں علماء۔اساتذہ۔طلباء۔سول سوسائٹی اور میڈیا کو پولیس کا ساتھ دینا ناگزیر ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر شا نگلہ رسول شاہ نے منعقدہ سیمنار گورنمنٹ ہائیرسیکنڈری سکول کوٹکے میں منشیات سے پاک شانگلہ مہم کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ منشیات میں ملوث اور جرائم پیشہ عناصر کیساتھ سختی سے نمٹا جائے گا ،عوام پولیس کے ساتھ تعاون کرے تو شانگلہ سے جرائم پیشہ افراد کا صفایا کرادیں گے،عوامی تعاون کے بغیر پولیس ادھوری ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف عوام شانگلہ پولیس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں جس کی وجہ سے پولیس روز بروز منشیات کے خاتمے میں کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے ، عوامی تعاون کے بغیر پائیدار امن سمیت جرائم پیشہ افراد کی روک تھام ممکن نہیں ، منشیات معاشرے میں ناسور ہے اور اس کے خاتمے کیلئے شانگلہ پولیس انتہائی ایمانداری اور جانفشانی سے تگ و دؤ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان عناصر کے ساتھ انتہائی سختی کے ساتھ نمٹا جائیگا ۔ تمام تھانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے عناصر پر سخت نظر رکھیں اورعلاقے میں منشیات کے خاتمے میں عوام اور مشران علاقہ سے مدد حاصل کریں۔ضلع کے ہر علاقے میں منشیات سے پاک شانگلہ مہم میں سیمنار منعقد کی جائے گی۔

آج خیبرپختونخوا پولیس نے جہاں دپشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی اب منشیات کے خلاف جہاد کریں گے۔ سیمینار سے معروف عالم دین مفتی علی عباس نے قرآن و سنت کا مستند حوالہ دیتے ہوئے نشہ اورمواد کے حوالے سے شرکاء کو سیر حاصل بحث کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دین اسلام میں بھی نشہ اور چیزیں حرام ہیں اور اس حوالے سے کئی مستند احادیث واضح طور پر موجود ہیں جو کہ نشہ اور مواد کی نفی کرتا ہے ، ہمارے دین اسلام نے نشہ کو استعمال کرنا حرام قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کے احکامات جاری کئے ہیں ۔ سیمینار سے ایس پی انوسٹی گیشن محمد خالد ٗپرنسپل گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول کوٹکے سیدرفیق ٗسبجیکٹ سپیشلسٹ محمداسلام ٗریٹائرڈ سکول ہیڈ ماسٹر فضل کریم ٗعبیداللہ ٗ ٗمولاناسلطان محمود ٗظاہرشاہ ٗ سمیع اللہ ودیگر نے بھی خطاب کیا۔مقررین نے منشیات کے نقصانات پر علماء نے اسلامی نکتہ نظر قران و حدیث کی روشنی میں واضح طور پر بیان کیا گیا جبکہ ماہرتعلیمات اور طلباء کو منشیات سے دور رہنے اور انکو انسان کیلئے تباہی قرار دیتے ہوئے ان کو تنبیہ دیا کہ وہ ان سے دور رہیں ۔ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شانگلہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس نے جہاں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کو بحال کیا اور شہادت پائی ، دہشتگردوں کے خلاف جہاد کیا ، اب وقت آگیا ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس منشیات کے خلاف بھی جہاد کریں ۔۔

Friday, November 30, 2018

سو دن کے بعد عمران نے الطاف حسین کی نقل شروع۔ Imran copy Altaf Hussain s...



Imran follows MQM Altaf Hussian in making lengthy, boring speech studded with lowly references on 100 days in office


Hassan Khan
The lengthy boring speech of Prime Minister Imran Khan at the pompous ceremony marking 100 days of Pakistan Tehrik Insaaf in office, no doubt, reminded the listeners such rhetorical utterances once made by Altaf Hussain – chief of Muthahida Quami Movement- to a similar captive audience.
To sum it up in a sentence, the speech made by Prime Minister Imran Khan to a locked up audience was high in rhetoric and very much low in substance.
It does not seem that a prime minister of a country with 200 million population making serious statement at an important ceremony. It was more like an angry opposition leader bombastically speaking with lowly references; counting on the problems faced by the people for which he was simultaneously accusing others for not delivering.
As said, listening to the long-drawn-out speech of Prime minister Khan - both its contents and spectacles brought in one minds the scenes when MQM supreme leader Altaf Hussain was making long boring sermons to an audience which once nicknamed by Imran Khan himself as ‘dead human elements’.
Truth of the matter is that any political government irrespective of political affiliation would have struggled hard to make certain visible achievements in its first 100 days in office. So PTI or Imran Khan was not any exception.
However, as to its character, the PTI’s extraordinary haste of demonstrating the people that its government was quite prepared in advance for meeting the demands of high office not only put undue pressure on administration, but also needlessly raised expectations of people.
The political opposition is right when it say that no body told the PTI to deliver in 100 days. It’s a fact the target was set by the PTI itself promising to deliver and achieve visible changes on the ground both in improving the system of governance and bettering the people lives.
Listening to the prime minister speech talking of 100 days achievements of the PTI regime in office, it turned out to be high in promises and rhetoric and lowly in delivery and achievements.
When PTI took over reign of power it promised to ‘deliver quick results’ saying people will feel the difference with in first 100 days.
However, to many, on the completion of 100 days in office, even the high-cost ceremony and media campaign proved to be a scene from famous Shakespearean comedy “Much Ado About Nothing”.
It would have been much better, had the PM avoided appearance with such fun fair when there was nothing to present or talk about. A simple press conference by a minister would have been enough.
In an hour long speech, the PM was quite short of saying something substantial, new or meaningful about policy matters or revealing achievements on the economic fronts. All he said was asking the people to tight their belt further and wait for Saudi Arab, UAE or the Chinese aids to reach.  
Daily Dawn has magnificently editorialized government performance saying, “On the financial crisis whose basic contours were set before PTI took office….was perhaps rendered somewhat worse by indecision on part of the PTI’s economic team… There is a contradiction in Khan’s economic philosophy that could hamper his government’s medium-term plans: is economic growth about bringing back allegedly looted wealth stashed abroad, or is it about creating a business- and investment-friendly economic climate?”
The references prime minister made in his speech were again quite similar to the ones generously made by Altaf Hussain sahib in his notorious speeches.
Had Prime Minister Imran Khan being a truthful or honest or somewhere near to politics of Quaid Azam Muhammad Ali Jinnah as claimed by him, he would have honorably accepted failures of his administration instead externalizing all challenges or accusing past regimes.
For hundred days in office, PTI has did zero legislation despite spending millions of tax payers money on sessions of both houses of parliament. But how can legislation be done in absence of parliamentary committees which are yet to be formed.
Imran Khan again and again refers to corruption as prime malaise befallen on Pakistan. Certainly, corruption is unacceptable but again poor governance is tied to corruption. But the government seems to have not yet focused on generating wealth which is the obvious way to lift millions of poor out of poverty not the false promises of returning ‘billions of dollars’ stashed by Pakistanis abroad.
At the end one can assume Prime Minister Imran Khan has fortunately one good advantage over MQM leader Altaf Hussian. Imran has an intelligent wife in madam Bushra Manika which keeps on reminding him who he is once he make wrong moves or go off the track. This is a luxury that Altaf Hussian had not had otherwise he would not have fallen from the grace.

Thursday, November 29, 2018

Afghan doesn't need Corridor with Pakistan, Kartharpur is for Sikhs in India & world over



Hassan Khan
On Wednesday November 28, when Prime Minister Imran Khan laid foundation stone of the Kartharpur Sahib corridor project between Indian and Pakistan providing a conduit between two holiest places of Sikh religion, some Pakistani politicians, nationalist leaders and social
media activists raised voices for having such a corridor between Pakistan
and Afghanistan.
The critics of Kartharpur corridor or the one demanding corridor between Pakistan and Afghanistan are criminally ignoring the huge differences that existed between Pakistan relations with India and Pakistan relations with Afghanistan respectively.
Since birth of Pakistan in 1947, both Pakistan and India are perpetually in state of hostility. Both had fought three major wars, scores of border conflicts still existed between Delhi and Islamabad and having killed hundreds of thousands of people from both sides.
Like the dissimilarities between people of Pakistan and India, there also existed multiple disputes between the two countries ranging from territorial disputes over Himalayan state of Kashmir to border disputes over Line of Control.
The cross border movement between people of India and Pakistan is almost non-existent; and exports and imports trade between the two countries is done via third countries.  
There is a strict visa regime between India and Pakistan.
People from both countries are facing extreme hardships in visiting each other families or relations, or even the religious sites in respective countries.
There is hardly any movement at the border points between India and Pakistan except Wahga and Attrari border point. The spectacles of machoism at Wahga-Attari displayed by border forces of India and Pakistan are just for the visitors eyes to see. However crossing the point even with valid documents  is the most difficult exercise and is hardly seen done.
Contrary, to this situation, there are multiple open border points between Pakistan and Afghanistan. During the last seven decades, the border points along Pak Afghan border are flooded by people round the clock from both sides.
Until recently, there was hardly any visa regime existed between Pakistan and Afghanistan and people used to visit each other countries without valid documents.
Even today, majority of Afghans are still not used to cross the border with valid visa or other documents. The scenes at Torkham, Chaman and Ghulam Khan border points are witness to the reality that prevailed between Afghanistan and Pakistan.
Daily hundreds of thousands are visiting their relatives, hospitals for medical treatment and educational institutions.
Visiting the Torkham border point at any time of the day one can see thousands of people still coming from Afghanistan entering Pakistan without having visa. No doubt, to check the movements of bad elements on both sides of the border, both the countries agreed to have a proper visa regime like other
countries.
However, just a year or two ago, Afghans or Pakistani never felt any need to have a visa regime from either sides to cross the border. Even today more people or crossing border points between Afghanistan and Pakistan without valid visa than those having valid documents between any two countries of the world.
After Torkham, other most busy border point is Chaman linking Balochistan with Kandahar province of Afghanistan.
According to a senior official in Pakistan Consulate in Kandahar, majority of Afghans even today not applying for visas at the Kandahar mission; the reason is they believed – and quite obvious - for them it is more easy to cross the border without having visa than going through the ordeals of getting visa.
Hundreds of Afghans are visiting the Pakistani hospitals for treatment almost daily. Majority of the ailing Afghans are availing the facilities even at public sector hospitals which are meant for the Pakistan own people who are paying taxes. Afghans kids are studying in Pakistani educational institutions while residing with their relatives.
Ghulam Khan, Angoor Ada, Tri Mangal, Torkham, Nawa Pass, Arando and Chaman are the few important openings between Pakistan and Afghanistan which are flooded by people from both sides all the time. Scores such other points along the border are not listed, however, they are used by the local people from both sides.
Its a fact that people of Pakistan and Afghanistan are just like one nation, while people of India and Pakistan have lots of dissimilarities ranging from religion, language, culture and geographies.
Those asking Pakistan to have similar treatment with Afghans as Islamabad is meting out with Indians is asking for creating hatred and mistrust between the two people.
What I suggest would to have open border policy with Afghanistan as like the past instead having corridor type facilities which are symbol of hatred.
-------------- ends

Saturday, November 24, 2018

لوئر اورکزئی دھماکہ اورچینی سفارت خانے پرحملہ



                                                                                                                                                  حسن خان
دو دن پہلے کرتا پور کوریڈورکھولنے کی پاکستان کی پیشکش پر بھارت کی جانب سے رضامندی کے فیصلے سے دونوں اطراف خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی اور یہ سمجھا جارہا تھا کہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدہ تعلقات کی برف اب پگھلنا شروع ہو گئی ہے لیکن کراچی کے علاقے کلفٹن بلاک 4میں گاڑی میں سوار دہشت گردوں نے چینی قونصل خانے اور اورکزئی میں جو حملہ ہوا ہے یقینا اس نے اس خوشی کو ماند کر دیا ہے ۔ واضح رہے کہ دہشت گروں کے چینی سفارت خانے پر حملے کے نتیجے میں 2پولیس اہلکار وں سمیت 4افراد شہید اور سیکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہوا ہے جبکہ پولیس اور رینجرز کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں 3دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جن کے قبضے سے خود کش جیکٹس، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔دوسری طرف لوئر اورکزئی کے علاقے کلایا بازار میں بارودی مواد کے دھماکے میں30افراد جاں بحق اور 40سے زائد زخمی ہوئے۔دوسری طرف کابینہ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ چینی سفارت خانے اور اورکزئی حملے سر پرائز نہیں ہیں۔ ہمیں پہلے سے خدشہ تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے کیوں کہ چین کے ساتھ معاہدوں کے بعد کچھ طاقتوں کو فکر لاحق تھی، کچھ طاقتیں پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ہم چین کے ساتھ معاہدوں کو سامنے نہیں لاسکتے وہ خفیہ ہیں، سب کو پتہ ہے ایسے معاہدے کسی ملک اور پاکستان کے درمیان نہیں ہوئے لہٰذا ان معاہدوں کے بعد خدشات موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور پاکستان میں انتشار دیکھنے والوں نے ایسا کرنا تھا۔اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے چینی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور رینجرز کی بہادری اور کارکردگی پر فخر ہے، انہوں نے چینی قونصل خانے پر حملے کی جامع تحقیقات کا بھی حکم دیا۔
 جہاں تک چینی سفارت خانے پر ہونے والے حملے کا تعلق ہے اس حملے کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے جبکہ لوئر اور کزئی حملے کی ذمہ داری تاحا ل کسی کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ۔ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے تانے بانے بھارت سے بھی ملتے ہیںکیونکہ بھارت کے جاسوس کلبھوشن یادیو نے اپنے اعترافی بیان میں ''بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے)کو بھارتی فنڈنگ کا انکشاف کیا تھا اور اعتراف کیا تھاکہ یہ تنظیم بھارت کی ایما پر پاکستان میں کارروائیاں کرتی ہے۔ کلبھوشن یادیو کے اسی بیان کی بنیاد پر گزشتہ روز چینی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔اس شبہ نے ایک بار پھر بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کردیا ہے کرتا پور کوریڈور کے کھولنے پر رضامندی کے پیچھے بھی مودی سرکار کی ایک چال تھی کیونکہ اس وقت بھارت میں الیکشن ہونے جارہے ہیں اورمودی سرکارنے سکھ برادری کو خوش کرنے کیلئے ایسا کیا ہے لیکن دوسری طرف اس نے دہشت گردوں سے چینی سفارت خانے پر حملہ کروا کے پاکستان کو بھی واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ کسی غلط فہمی نہ رہے کہ وہ پاک چین تعلقات کو قبول کرے گا۔ یاد رہے کہ علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ یہ حملہ چین کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ وہ ہماری زمین پر قبضے کی کوشش چھوڑ دے ورنہ مستقبل میں اسے مزید سنگین معاملات کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ چینی اور پاکستانی حکومتیں سی پیک کو پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان کے لیے گیم چینجر قرار دیتی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ سی پیک کے ذریعے بلوچستان سمیت ملک کے بہت سے پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جائیں گے جس سے ترقی سے محروم ان علاقوں میں خوشحالی آئے گیلیکن بھارت پاک چین تعلقات کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو بھی نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔اپنے انہی مذموم عزائم کے حصول کیلئے بھارت بلوچستان لبریشن آرمی اور چھوٹی چھوٹی علیحدگی پسند تنظیموں کے ذریعہ پاکستان سے پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اگرچہ بلوچستان میں دہشت گردوں کا کافی حد تک صفایا کردیا گیا ہے لیکن مکمل صفایا اس لئے مشکل ہے کہ یہ دن کے وقت عام لوگوں کی زندگی بسر کرتے ہیں رات کو دہشت گرد کاروپ اختیار کرلیتے ہیں تاہم ان کی تعداد اب بہت کم ہے جس کا ثبوت صوبے کے ان علاقوں سے جہاں ان کا زور تھا پریشان کن خبریں نہیں آرہیں۔ بہت کم افرادی قوت رہ جانے کے باعث کیونکہ پہلے جیسی دہشت گردی ممکن نہیں رہی اس لئے اب ایک نئی حکمت عملی کے تحت ان چند دہشتگردوں کے ذریعہ جو پہاڑوں میں روپوش ہیں ہائی پروفائل ٹارگٹ نشانہ بنائے جارہے ہیں ظاہر ہے ایک سو عام لوگوں کے مارے جانے کو عالمی سطح پر اتنا محسوس نہیں کیا جاتا جتنا کسی پولیس آفیسر یا اہلکار اور فوج رینجرز یا ایف سی کے آفیسر یا جوان کا نشانہ بننا توجہ حاصل کرتا ہے اسی حکمت عملی کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔لیکن بھارت یہ بھول گیا ہے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحریہ عرب سے گہری ہے، پاکستان اور چین کے معاشی، اسٹریٹیجک تعلقات کے خلاف سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اس میں کوئی شک نہیںکہ کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ اس ملک میں استحکام اور امن ہو، یہ قوتیں معاشی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننا چاہتی ہیں تاہم سیکیورٹی فورسز نے ان کے عزائم کو خاک میں ملادیا ہے۔ پاک چین دوستی لازوال ہے اور دونوں ممالک کے راستے میں یہ قوتیں رکاوٹ بننا چاہتی ہیں تاہم وہ اپنے عزائم میں ناکام ہوں گے۔یقینادونوں حملے ملک میں بدامنی پھیلانے کی سوچی سمجھی سازش کے تحت کئے گئے ہیںاور ان حملوں میں وہ قوتیں ملوث ہیں جو پاکستان کی ترقی سے خوش نہیں تاہم کسی کے ذہن میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری پاک فوج اور سیکورٹی ادارے ہر قیمت پر ان دہشت گردوں کو شکست دیں گے۔